Add To collaction

لیکھنی ناول -20-Oct-2023

تُو عشق میرا از قلم عائشہ جبین قسط نمبر18

کیا بول رہا ہے تو پاگل ہوگیا ہے دماغ ٹھکانے پر تو ہے تیرا کچھ سمجھ بھی آرہی ہے کیا بکواس کی ہے حیدر علی کو آنکھیں دکھا کر بولا عبداللہ حیران نظروں سے علی اور حیدر کو دیکھ رہاتھا علی کی بات جیسے اس کے سر سے گز گی تھی ایسا کیا بول دیا ہے میں نے جو تو یوں میرے گلے پڑرہا ہے میں صدف کو پسند کرتا ہوں وہ بھی مجھے پسند کرتی ہے اس میں کونسی راکٹ ساٸنس ہے جو تو سمجھ نہیں سکتا سیدھی سی بات ہے علی کولڈ کا سیپ لے کر بولا نہیں یہ اتنی سیدھی بات ہے نہیں جتنا تو ہلکا لے رہا ہے تو کیسے مطلب صدف سے ایک منٹ یہ بتا پھر تونے ہادیہ سے شادی کیوں کی اگر تو صدف کو پسند کراتھا اور یہ ہوا کب تو سارا وقت تو ہادیہ کے ساتھ ہوتا تھا یہ صدف نامی چڑیل کب تیرے گلے پڑگی مجھے سب شروع اور کھل کر بتا حیدر بولا تو عبداللہ نے بھی اس کےساتھ سر ہلایا ہاں بھاٸی بتا یہ کچڑی کب سےپک رہی تھی ہم سب کو پتا کیسے نہیں چلا ہم تو سمجھتے تھے تیرا ہادیہ کے
ساتھ سین ہے عبداللہ نے آخری بات بولی تو علی نے اس کوگھورکر دیکھا اوۓ تمیز سے بات کر ہادیہ کے بارٕے منہ توڑ دینا ہے تیرا میں نے اچھا اس کو دفع کر تو چِل کر اور بتا سب حیدر نے علی کا دھیان عبداللہ سے ہٹایا اور عبداللہ کو
خاموش رہنے کا اشارہ کیا بات ایسی ہے کہ جب ہم ناران گے تھے تب مجھے وہی صدف نےپرپوز کیا تھا اوربتایاتھا وہ مجھے کب سے محبت کرتی ہے بس بتا نہیں سکی کبھی جھوٹی کمینی مکار لومڑی عبداللہ آہستہ آواز میں بولا اتنی بڑی بات ہوگی اور تو نے ہمیں بتانا بھی ضروری سمجھا کیا بات ہے اور تو کہتا ہے ہم دوست ہیں حیدر تاسف سے بولا یہ سب اتنا اچانک ہوا میں خود بھی کچھ سمجھ نہٕیں پایا اور پتا کب اور کیسے مجھے بھی صدف اچھی لگنے لگی علی نے بولا تو عبداللہ نے اس کو سخت گھوری سٕے نوازا اور منہ میں بدبدایا اتنا بھولا چھونا ہے ناتو اس نے بولا چلاکو ماسی نے بولا یہ مان گیا اور ہادیہ کا کیا اس کے ساتھ تیرا ہر وقت گھومنا پھیرنا اسکا خیال کرنا اس کو صرف ااپنے تک محدود رکھنا کسی اور کو نا اس کا دوست بننے دینا نا اس کو کوٸی د وست بنانے دینے یہ سب کیا تھا عبداللہ ایک ایک لفظ چباچبا کر بولا وہ سب تو میں اس کی دوستی میں کرتا تھا وہ بہت معصوم ہےاس کو اچھے برےکی پہچان
نہیں ہے کیا غلط ہے کیا صیح ہے اس کو پتانہیں چلتا ا س کی حفاظت کے لیے کرتاتھا وہ سب جس کا یہ بدلہ ملاہے مجھے اس کو ساری زندگی کے لیے میرےسر پر مسلط کردیا گیا ہے وہ بدمزہ ہوکر بولا کیا بات ہے تو نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے اور تو خود تو بڑاسمجھ دار ہے جیسے افلاطون ہے جیسے یاارسطو ہے حیدر جل کر بولا ہم سب کو لگتا تھا تو ہادیہ سے محبت کرتا ہے اس کی فکر کرتا ہے جبھی اس سے شادی بھی کی ہے
ہاہاہاہا فکر والی بات تو ٹھیک ہے محبت والی بات سمجھ نہیں آٸی ایسا کیوں لگا تم لوگو کو علی بے تحاشا ہنستے ہوۓ بولا اگرمحبت نہیں کرتا تو شادی کیوں کی عبداللہ نےب سوال داغا افففففف یار میں نے اس کو بہت مان سے روکا اس شادی کے
لیے جب اس نے مجھے بتایا تھا میں سمجھا تھا وہ میری بات کو سمجھ جاۓ گی ہمیشہ کی طرح مگر اس نے میر ابھروسہ میرا مان میری دوستی کا غرور سب توڑ دیا سب ختم کردیا اب بھگتے اور کرے مزہ اب کیوں روتی ہے اس نے یہ سب خود اپنے لیے قبول کیا ہے یہ اس کا اپنا انتخاب ہے مطلب تو نے اس سے بدلہ لینے کے لے شادی کی لعنت ہے تیری مردانگی پر عبداللہ غصے سے بول کر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا جب علی نے اس کو جاتادیکھا اور حیدر سے بولا دیکھ کیا بکواس کرکےگیاہے اس کو کیوں آگ لگ گی اس کو چھوڑ تو مجھے بتا اب تو کیا چاہتا ہے کیا مطلب کیا بتاوں اب تجھے یار وہ میری اچھی دوست ہے بس اور کچھ نہیں علی اب وہ تیری بیوی ہے یہ بات تو نظر انداز نہیں کرسکتا یہ یاد رکھ میرے یار ہاں زبردستی کی بیوی وہ سرجھٹک کر بولا تو منع کردیتا شادی کے لیے
کیاتھا منع ہادیہ کو اس نے مذاق سمجھا سب اور ابو کو بولا تو وہ بولے اگر ہادیہ منع کردے گی تو نہیں ہو گی یہ شادی مگر میڈیم کو میری بات مذاق لگی تھی اب میں کیا کروں تو بتا میں پھنس گیا ہوں یار پھر ایا کر تو ہادیہ کو چھوڑ دے مطلب طلاق دے کر صدف سے شادی کر لیے حیدر نے اس پر نظریں گاڑتے ہوۓ بولا تیرا دماغ خراب ہے پاگل ہے تو میں ایسا نہیں کر سکتا میں مر کر بھی یہ نہیں کروں گا میں ہادیہ کو یہ دکھ نہیں دے سکتا یہ رسواٸی یہ
ذلت دینے سے پہلے میں مرنا پسند کروں گا علی بڑے جذباتی انداز میں بولا تو حیدر منہ نیچے کر کے مسکرایا دکھ دے نہیں سکتا رسواٸی سے اس کی تجھے فرق پڑتا کوٸی اور اس سےدوستی کر یہ قبول نہٕں تجھے کسی کا اس کو دیکھنا تجھے سے برداشت نہیں ہوتا اور کوٸی غلطی سے اس کو چھوۓ تو دیوار بن جاتا ہے اس کے سامنے یہ سب دوستی میں نہیں ہوتا میی جان یہ سب پیار محبت میں ہوتا ہے اور تجھ تو عشق ہے ہادیہ سے بلکہ تجھےجنونی عشق ہے اس سے مگر تو مانتا نہیں اس بات کو اس کو تسیلم نہیں کرپارہا تجھے علی شاہ کو اپنی دوست سے
عشق ہوگیا ہے جو تیری برداشت سے باہرہےاور اب اس کا اظہار کرنے کے بجاۓ تو اس کا الزام اس بےچاری ہادیہ کو دے رہاہے وہ بڑی تفصیل سے بولا علی ہکابکا اس کو دیکھنے لگا نہنہ نہیں یہ بات نہیں ہے تو غلط سمجھ رہاہے وہ
کمزرو لہجے میں بولا میں سب سمجھ گیا ہوں سمجھ تو نہیں رہا ابھی دیکھا ہم نےکیسے یاور نے ہادیہ کو گرنے سے بچانے لگا تو کیسے تجھے تکلیف ہوٸی کیسے تو یاور کو باتیں سناٸی کیسے ہادیہ کےسامنے دیوار بن کر کھڑا رہا کیسے ہم نٕے صدف کو چڑیل بولا تجھ کچھ محسوس نہیں ہوا اور جیسے ہی ہادیہ کےساتھ سین اور اس کو طلاق دینے کو بولا کیسے تو تڑپ اٹھا اپنے دل کو ٹٹول میرے یار تجھے سب پتا چل جاۓ گا اور تیرے سر سے یہ صدف کا جادو بھی اترجاۓ گا غور کر میری باتوں اپنے اردگرد اپنا رویہ اور سب سے بڑھ کر اپنا دل اپنے دماغ سے یہ بات نکال دے وہ تیری دوست ہے یہ سوچوہ دوست اتنی اچھی تھی تو بیوی کتنی اچھی ہوگی وہ تیری ہر بات مانتی ہے اس کا یہی مطلب ہے وہ تجھے سے بے انتہا پیار کرتی ہے جبھی تیری ہر بات ہر رویہ ب
برداشت کرتی ہے ورنہ اب تک تیرےمنہ پر لات مار کر چلی گی ہوتی اتنی پیاری ہے اس کو کیا کمی اسکا پیاری کہنے پر علی نے ایکدم سے حیدر کو دیکھا ابھی دیکھ کیسے مرچیں لگ گی تجھے میرا اس کو پیارا کہنے پر یار بہن کی طرح ہے وہ میری اور اب تیری نسبت میری بھابھی ببھی ہے چل میں چلتا ہوں بہت لیٹ ہوگیا ہے عبداللہ کو بھی دیکھوکہاں گیا اور ہاں میری باتوں پر غور ضرور کرنا میرے یار دوستی دوستی کا چولا اتاردے محبت کی عینک سے دیکھ سب واضح نظر آۓ گا وہ اس کے کندھےپر ہاتھ رکھ کربولا اور چلا گیا علی اس کوجاتا دیکھتا رہا اور اس کی باتوں کو سو کر دونوں باندھ کرسر کے نیچےرکھ کر کرسی سے سرٹکا دیا اور آسمان پر چمکتا چاند دیکھنے لگا ©©©©©©©©©© وہ خود بہت مشکل سے وہاں سے گھسٹ کر اوپر
چھت پر آٸی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی وہ یہ بات قبول نہٕیں کر پارہی تھی ک علی نےاور کسی کا نہیں صدف کو نام لیا تھا آج اس کو اس شادی کے ہونے کامطلب سمجھ آگیا تھا کہ اس کے ابا اور اقرارشاہ نے کیوں علی کے انکار کرنے کے بعد بھی یہ شادی کراٸی وہ جانتے تھے علی صدف کو پسند کرتا ہے قریب تھا وہ روتی وہ صدف کی آواز پر پلٹی تھیاس نے اپنا چہرہ صاف کیااور اس کی طرف پلٹی کیا کررہی ہو تم یہاں وہ مضبوط لہجے میں بولی میں نے تمہیں چھت پر آتا دیکھا توسوچا تمھارے پیچھے آنا چاہیے یہ نہ تم چھت سے کود جاو یہ کہی کسی کونے میں بیٹھ کر رو رہی ہوگی توروکو گی یا یہ رومال دوں گی تمہیں وہ طنزیہ ہنسی ہنس کر بولی ہادیہ بڑے آرام سے دونوں ہاتھ سینے پر با ندھ کر کھڑی اس کی بات سننے لگی ہوگی تمھاری بات یاباقی ہے کچھ صدف شاہ تمہیں یہ غلطفہمی کیوں ہوٸی کہ یہاں چھت سے کودنے یا کسی کونے میں رونے آٸی ہوں ابھی سنا تم علی کیسے اپنےدوستوں سے مجھے سے محبت ہونے کا دعوا کر رہاتھا اور ارے ارے روکو روکو ایک منٹ اپنے الفاظ کی تصیح کرو اس نے کہا تھا وہ پسند کرتا ہے تم صرف پسند وہ پسند پر زور دے کر بولی ہاں تو کیا پسند اور محبت میں کوٸی فرق نہٕیں صدف ایک دم سے بولی بہت فرق ہے ماٸی ڈٸیر بہت فرق ہے شاید تم جانتی چلو میں بتاتی ہو پھر آج تمہیں توایسا ہے پسند وہ ہوتا ہے جو وقتی ہو اور محبت داٸمی ہوتی ہے جو کسی کہ کچھ بھی کرنے سے ختم نہیں ہوتی بلکہ دن با دن بڑھتی ہے کیس ہری بھری بیل کی طرح پوری قوت اور اپنے مدار کی طرف اپنے مرکز پر جاکر روکتی ہے اور پھر آگے بڑھتی ہے ہادیہ صدف کو دیکھ کر بولی اور تمہیں کیا لگتا ہے علی تم سے محبت کرتا صدف طنز بھری نگاہ اد پر ڈال کر بولی
وہ مجھے سے محبت کرتاہے یا نہیں تم اس کی فکر مت کرو وہ ہمارا آپس کامعاملہ ہےہم خود دیکھ لیے گے تم اس میں گھل کر خود کو پریشان مت ہو اپنے مستقبل کی فکر کرو وہ دھیمہے سے مسکرا کر بولی ہاہاہا صدف تالیاں بجا کر ہنسنے لگی تم اتنا کس
بات پر اکڑ رہی ہو آج تک تم دوماہ میں کبھی ایک دوسرے کے قریب آ نہیں سکے اور بات کیسے کر رہی ہو تم جیسے بہت پار محبت ہو تم میں صدف جلتے لہجےمیں بولی ہم ایک دوسرے کے کتنے قریب ہے تم بڑا جانتی ہو ایک بات یاد رکھناصدف علی میرا شوہر ہے میرا لباس ہے وہ پہلے وہ میرا ہوا ہے اب وہ تمہیں کس
طرح دیکھتا ہے یاکیا کہتا ہے مجھےاس سے کوٸی پرواہ نہیں ہے پتا ہے کیا صدف شاہ ہادیہ اس کے بلکل پاس گی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضبوط لہجے میں بولی میرا نام ہادیہ علی شاہ ہے میرا صرف نام اس سے نہیں جوڑا بہت
قریبی رشتہ ہے ہم ایک کمرے میں رہتےہیں ایک ساتھ میرا نہیں خیال اور کچھ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہوگی اور ہاں اگر وہ بھولے سے تمھاری طرف آتا بھی ہے تو ایک بات کان کھول کر سنو اور یاد رکھنا وہ پہلے میرا ہوا ہے اب وہ اترن ہے میری کیا ہے اترن یاد رکھنا میری بات وہ بول کر نیچے جاے لگی تو صدف اس پر چلانے لگی اور غصے میں نجانے کیاکیا بولنے لگی پر ہادیہ بنا پرواہ کیے نیچے اتر آٸی اپنے روم میں جاکر
دروازہ اند ر سے لاک کر لیا منہ پر ہاتھ رکھ کر رونے لگی اب کمرے میں اس کی سسکیا ں گو نج رہی تھی ¥¥¥¥¥¥¥¥¥¥_¥¥¥¥¥¥¥¥ آج علی اور مہندی کا دن تھا اس دن ہادیہ سےبات
کرکے علی نے سوچا تھا یہ شادی نہیں ہوگی پھر کچھ اس کیی اپنے والد سے بات ہو ٸی ان کے کہنے پر علی نے ہر ممکن کوشش کی وہ ہادیہ سے ایک بار بات کرسکے یا یہ ملاقات ہوجاۓ مگر یہ ممکن نہیں ہوا ہر بار کوٸی نہ کوٸی اس کو ہادیہ سے ملنے کو روک دیتا تھا وہ اپنے حال پر پریشان تیار ہورہاتھا سفید سوٹ پر بلیک واسکوٹ پرپہنے اور ہلکی بڑھی شیوہ میں بہت ہنڈسم لگ رہاتھا جب سدرہ مریم اور شماٸلہ اس کے پاس آٸی کیا بات ہے دولہے راجہ ابھی تک تیار نہیں ہوۓ وہ اس کو دیکھ کر بولی تیار ہوں بھابھی وہ اپنے چہرے پر ھاتھ پھیر کر بولا تم نے کھوسہ نہیں پہنا مریم نے اس کے سامنے اس کے کھوسہ کیا یار آپی یہ نہیں کچھ اور پہن
لیتا ہوں میں یہ نہیں پہن سکتا وہ منہ بناکر بولا وہ تینوں ہنسنے لگی
کیوں جی اس میں کیا براٸی ہے سدرہ نے کمر رکھ کر سوال کیا کوٸی براٸی نہیں ہے کبھی پہنا نہٕیں عجیب فیل ہوگا شادی بھی پہلی باری ہورہی ہے تمھاری وہ تو عجیب نہیں لگا رہاتمہیں شماٸلہ نے ا س واسکوٹ میں رومال سیٹ کیا چل اب اتنے نخرے مت کرو علی یہ پہنو اور یہ بھی
مریم نے اس کے گلے میں یلو کلر کا دوپٹہ ڈالا یار یہ کم تھا اب یہ کیا نٸی مصیبت ہے وہ چڑا تم تیار ہوگے یا ابو کو بلاو مریم نے آنکھیں دکھاٸی حدہے یار بناٸے جو کارٹون بنانا ہے کون سا روک جانا ہے آپ لوگوں نے میری سن کون رہاہے وہ کھوسہ پہن کر بولا اور مریم کے ہاتھ سےدوپٹہ لےکر گلے میں ڈال اور ان تینوں کی طرف دیکھ کربولا بس یہی یا اور کچھ
نہیں نہیں اور کچھ نہیں بہت پیارے لگ رہے ہو مریم اور شماٸلہ اس کی بلاٸیں لے کر بولیں
اب وہ سب ہادیہ کے گھر مہندی کی رسم کے لیے ملک ہاوس کے لے نکل چکے تھے سب بہت خوش تھے اقرار شاہ اپنی جگہ مطمن تھے جو وہ چاہتے تھے وہ ہورہاتھا اس سے بات سے انجانے کہ انکے بیٹے علی کے دماغ میں کیا چل رہاہے
مہندی کی ر سم باخیرو عافیت ہوگی تھی کسی بھی بدمزگی کے بغیر علی نے آج بھی ہادیہ سے بات کرنے کی کوشش کی جو ا س کی کزنوں نے ناکام بنادی تھی اب بس کل کا انتظار تھا جب ہادیہ دلہن بن کر شاہ ہاوس میں آۓ گی تب علی شاہ اس کو بتاۓ گا کہ اس کی بات نہ ماننے کا کیا انجام کیا ہوتا ہے بلاآخر وہ دن بھی آ گیا جب ہادیہ علی کے نام کی مہندی لگا ۓ اس کے لیے دلہن بنی بیٹھی تھی سب کے مطابق اس پر ٹوٹ کر روپ آیا تھا وہ ہال میں اپنی بہن اور بھاٸی یاسر ملک کے ساتھ داخل ہوٸی تو اس پر اس کی دوستوں اور کزنز نے پھول برساٸے اور کسی شہزادی کی طرح استقبال کیا اب اس کو براٸیڈال رو م میں بٹھا دیا جہاں کچھ دیر بعد اس کا نکاح ہوناتھا اس کو دل بہت تیزی سے دھڑک رہاتھا وہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پا رہی تھی ہاتھو ں میں بار بار پسینہ آرہاتھا ہارٹ بیٹ بار بار مس ہورہی تھی اماں مجھے بہت ڈر لگ رہاہے وہ گھبرا کر بولی کیوں وہ تمھاری عانی کاگھر ہے اور علی کوتم
اچھے سے جانتی ہوں وہ بھی تمہیں اچھے سے جانتا ہے اور سب تم سے بہت پیار کرتے ہیں دیکھنا بہت خوش رہو گی تم ان شاء اللہ وہ اس کے سر پر پیار کرکے بولی تب ہی اس کے والد نکاح کے لیے آۓ اس کے والد بھاٸی کی اجازت کےبعد قاضی نے
نکاح کی سنت ادا کی قاضی پوچھنےپر اس نے ہلکا سا سر اٹھا کر اپنے ابا کو دیکھا انہوں نے اس کو ہاں میں سر ہلایا
اس نے ہاں کرکے اپنا نام اپنا آپ علی شاہ کے نام کردیا دستخط کرتے ہوٸے اس کے ہاتھ کانپے تھے مگر جب اس کے ابا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو اس نے تیزی سے ساٸن کردیے اور ایک انمول موتی اس کی آنکھ سے گرا تھا اس کے علی کے اقرار کے بعد سب میں مبارک مبارک کاتبادلہ ہوا سب بہت خوش تھے ایک ہادیہ کو آنے والے وقت سے انجانے تھی علی جیسے کے دماغ میں بہت کچھ چل رہاتھا ایک طرف اقرار شاہ نے اپنے جگر ی دوست کو بہت محبت سے گلے لگایا اور شکریہ ادا کیا جہنوں نے اپنے جگر کا ٹکڑا ان کے حوالے کردیا تھا سب جانتے ہوۓ تو فکر مت کرنا ملک ہادیہ میری بیٹی ہے میں اس کا پورا خیال رکھوں گا اور بہت جلد سب ٹھیک ہوجاۓ گا یہ میرا وعدہ ہے وہ جذبات سے بوجھل سے لہجےمیں بولے میں جانتا ہو مجھے اعتبار ہے اللہ پر اور تم سب
ٹھیک ہوگا ہم حق پر ہیں نعمان ملک ان کے گلےلگ کر بولے
ایک طرف صدف ان دیکھی آگ میں جل رہی تھی اس کے اور اس کی ماں کے پلان پر پانی پھیر دیا تھا اس شادی نے بہت مشکل سے اس نے علی کو اپنے جھوٹے پیار کے چکر میں پھانسا تھا اب اس کو سب اپنےہاتھوں سے جاتا نظر آرہا تھا مگر وہ جانتی تھی علی نے اس پر اعتبار کرلیا ہے اور وہ ہادیہ سے اپنی محبت سمجھ نہیں سکا رہا جس کا اس نٕے پورا فاٸدہ اٹھانا تھا اب اس کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا تھا جس کے لیے وہ پوری طرح تیار تھی ادھر علی اپنے خیالات میں الجھا ہوا کیا ہوا کیسے ہوا وہ غاٸب دماغی سے وہاں موجود تھا کب کون سی رسم اس کو نہیں پتا چلا ہوش تو اس کو جب آیا جب رخصتی کا شور مچا تو اس نے ایک نگاہ ہادیہ کو دیکھا اور پراسرا سا مسکرایا اور دل میں بولا
جسٹ ویٹ ہادیہ بی بی ویٹ اینڈ واچ

   0
0 Comments